Sunday, July 2, 2017

چندمناظر


عجیب وغریب مناظرہیں،کوئٹہ شہرکے جی پی اوچوک میں کھڑاٹریفک سارجنٹ سب انسپکٹرحاجی عطاء اللہ اپنی ذمہ داری نبھارہاہے،وہ ایک موٹرسائیکل پرسواردوافرادکوروکتاہے اسی اثناء میں سفیدرنگ کی تیزرفتارلینڈکروزر اسے درمیان سے اٹھا کردورجاپھینکتی ہے،گاڑی کاحجم بتاتاہے کسی بڑے کی ہے،سب انسپکٹرزخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیتاہے ،پولیس ڈرائیورکوگرفتارکرکے گاڑی قبضے میں لینے کا دعوی کرتی ہے ،بعد میں پتہ چلتاہے گاڑی کا مالک بلوچستان کارکن صوبائی اسمبلی ہے ،اس کا تعلق پشتونخواہ میپ سے ہے ،لوگ اسے ڈاکٹرعبدالمجیداچکزئی کے نام سے جانتے ہیں‘وہ شروع میں واقعے کی ذمہ داری فراخ دلی سے قبول کرتاہے لیکن جانے اچانک کیا ہوتاہے پولیس کوکئی دہائیاں اپنے محکمے میں ساتھ کام کرنے والے ،قانون کی رکھوالی پہ ماموراپنے ہی ساتھی،اس کی بیوہ اوربچوں کی پرواہ نہیں رہتی،پھرپولیس کاحافظہ جواب دے جاتاہے،بینائی کام چھوڑدیتی ہے،اسے پتہ ہی نہیں چلتا گاڑی کون چلارہا تھا،زیرحراست شخص انہیں دکھائی ہی نہیں پڑتااس کی باعزت اوربحفاظت گھرپہنچانے کی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش شروع کردی جاتی ہے ‘اس کی تفتیش کی آنکھ اتنی کمزورہے کہ قاتل کونہیں پہچان سکتی لہذابے چاری مجبوری اوراپنے محدودوسائل کے باعث نامعلوم افراد کیخلاف مقدمہ درج کرتی ہے،غریب پولیس اہلکارکے وارث مارنے والے کی شناخت کریں گے توتفتیش کا عمل آگے بڑھے گا‘معاملہ شناخت پریڈ تک پہنچا تو مجرم کوکہاں سے پہچانیں گے،اول توپہلے ہی عیدی لے کراپنے باقی جیتے مرتے لوگوں کی جان بچانے کی کوشش کریں گے ورنہ نئے حادثات بھی جنم لے سکتے ہیں اورکوئی بھی ذی شعورنئے حادثات کاانتظارنہیں کرتا۔
دوسرامنظر‘پارہ چنارکے طوری بازارمیں چہل پہل ہے ،علی طوری اپنے بچوں کیلئے عید کے کپڑے خرید رہا ہے ‘بیٹی کیلئے ایک سوٹ اٹھاتا ہے ،ذہن میں سوچتا ہے یہ پہن کے خوش نہیں ہوگی ،وہ دکھاؤ،حسن دکانداراسے ایک اورسوٹ دکھاتا ہے بتاتا ہے زینب کویہ کپڑے اچھے لگیں گے ،نہ پسند آئے توواپس لے آنا ،ابھی توعیدمیں ایک دودن باقی ہیں،ام فروہ کیلئے بھی دکھاؤ‘ہاں دودوسوٹ ہادی اورنقی کیلئے بھی،دکاندارکہتا ہے جلدی پسندکرلودیکھوباقی لوگوں کوبھی چیزیں دکھانی ہیں،علی طوری سامان لے کرنکل چکا ہے ‘ساتھ والے جنرل سٹور پہ کھڑا عاقب کہہ رہا ہے ذرا جلدی جاناہے مجھے پہلے درمیانے بازوکی دودرجن چوڑیاں پیک کردو،وہ مہندی کے چھ پیکٹ بھی ڈال دو،شوسٹورپہ عثمان اپنے بیٹے کیلئے پشاوری چپل کے ڈیزائن پسندکررہا ہے اسی اثناء میں ایک زورداردھماکہ ہوتاہے،دھماکے کی آوازبارہ تیرہ کلومیٹردورتک سنائی دیتی ہے،چیخ وپکار،لاشے،چیتھڑے،کٹے پھٹے لوگ،آہ وبکا،ایمبولینس گاڑیوں کے سائرنوں کی آواز،اسی اثنا میں ایک اوردھماکہ ہوتاہے،گرد ہی گرد،دھواں ہی دھواں،لاشے ہی لاشے ،پتہ چلتا ہے 34افراد نہیں رہے،100سے زائد زخمی ہوگئے،علی طوری دکان سے پچاس گز کے فاصلے پہ بے حس وحرکت لہولہان پڑا ہے،بازواڑ کے کئی قدم دورجاپڑاہے مگرحیرت انگیزطورپر اس نے زورسے مٹھی بھینچ رکھی ہے ،یہ نوسالہ زینب کے کپڑوں کا تھیلاہے ، اس کے پلوکوآ گ لگ چکی ہے ،دھواں اٹھ رہا ہے ۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈوکی مذمت آجاتی ہے پھراپنے وزیراعظم کی بھی،میڈیاسیل وزیراعظم کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہتا ہے کہ کوئی مسلمان ایسے گھناؤنے اقدامات کا تصوربھی نہیں کرسکتا،باردگربتایاجاتاہے کہ دہشت گردی کے واقعات کوریاستی طاقت سے کچل دیاجائے گا،آج صدرممنون حسین قوم کوخوشخبری دیتے ہیں کہ دہشت گرد اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں‘وزیرداخلہ چوہدری نثارنے اس واقعے کی بھی حکام سے رپورٹ طلب کرلی ہے جیسے پہلے کے واقعات کی طلب کرچکے ہیں ،انہیں بھی جاں بحق ہونے والوں سے ہمدردی ہے،انہوں نے زخمیوں کیلئے صحت کی دعا بھی کردی ہے لیکن جانے کیوں زینب نہیں بہل رہی ،وہ اپنی گرتی پڑتی،ہوش وہواس کھوچکی ماں سے چیخ چیخ کر لپٹ رہی ہے،ایک ہی بات کہے جارہی ہے مجھے کپڑے نہیں چاہئیں ،مجھے میرے بابا لادو۔
تیسرامنظر‘یہ فیصل آباد کی ایک مشہوریونیورسٹی ہے ،یہاں آج ان طلبہ نے اپنا موقف دینا ہے جنہیں چند روزقبل یونیورسٹی انتظا میہ نے سوشل میڈیا میںیونیورسٹی پرتنقید کے جرم میں نکال دیا تھا،ان پرحصول علم کے دروازے بندکرکے ان کی پوری زندگی جہنم بنادینے کابندوبست کردیا گیا ہے‘میڈیا اہلکاربھی کوریج پرپہنچ چکے ہیں،جانے کیوں اورکیسے اچانک سکیورٹی گارڈ میڈیااہلکاروں پرپل پڑتے ہیں،لٹا کے جوتوں سے،ٹھڈوں سے،ڈنڈوں سے جتنامارسکتے ہیں مل کرمارتے ہیں،کوئی جان چھڑا کربھاگنے کی کوشش کرتا ہے تواس پرپتھرمارتے ہیں،سکیورٹی گارڈزکی طاقت اسپین کے میدانوں میں کھیلنے والے جنگلی بیلوں سے بھی بڑھ چکی ہے ،مارنے والوں کی فوٹیج کے ساتھ بتا یا نہ جائے توکوئی پتہ نہیں چلتا یہ گوانتاناموبے کاواقعہ ہے یا مقبوضہ کشمیرکا،فلسطین کا ہے یاکسی عقوبت خانے کا‘کوئی نہ کوئی توبہت بڑا آدمی پیچھے ہے،بعد میں گارڈ بتاتے ہیں جی ہم تودس بارہ ہزارکے ملازم ہیں ہماری کیامجال ،میڈیا اہلکاروں پرتشددکریں ہم تو یونیورسٹی کے وائس چانسلرکے حکم کی تعمیل کررہے تھے ،میڈیا کے لوگ اس ظلم کیخلاف ایف آئی آردرج کرانے متعلقہ تھانے سے رجوع کرتے ہیں،ایف آئی آردرج نہیں ہوسکتی،کیوں؟بتایاجاتا ہے وی سی پنجاب کے کسی ایسے طاقت وروزیرکارشتہ دارہے قانون جس کے گھرکی باندی ہے۔
چوتھا منظر‘عالم ارواح ہے‘ قائد اعظم محمد علی جناح ایک خوبصورت باغ میں گاؤتکیہ لگائے بیٹھے ہیں،ارد گرد ان لوگوں کا ہجوم ہے جنہوں نے پاکستان بناتے ہوئے جانیں دی تھیں،جن کا خیال تھا پاکستان میں سب کیلئے قانون برابرہوگا،انصاف کابول بالاہوگا،سفارش‘طاقت اوردھونس دھاندلی نہیں چلے گی،غریب اورامیرکیلئے الگ الگ قوانین نہیں ہوں گے،قانون دولت مند اورصاحب اقتدارکیلئے موم کی ناک یا بوٹ کا تسمہ نہیں ہوگا،یہ لوگ قائد اعظم سے استفسارکرتے ہیں ،جناب آج اتنے افسردہ کیوں دکھائی دے رہے ہیں،قائد اعظم ایک ٹھنڈی آہ بھرکے فرماتے ہیں بیٹامیں نے پاکستان اس لئے نہیں بنایاتھا۔

No comments: